Mir Taqi Mir Poetry
Mir Taqi Mir poetry mesmerizing the hearts with its lyricism, takes the readers to the realm of deep emotions and timeless beauty.
Here we are sharing 60 best shayari collection which you can read and download images.
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
Meer Taqi Meer Poetry
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا ہی نہیں
اس عاشقی میں تو عزت سادات بھی گئی
میر ان کی نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
دل کی ویرانی کا کیا مزکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ملنے کا وعدہ ان کے تو منہ سے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے کہا ہنس کے خواب میں
اب کرکے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
Mir Taqi Mir Poetry in Urdu
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یہاں کہ یاد رہو
چمن میں گل نے کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھے ہیں انداز گفتگو کا
جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا
قہر ہوتا جو باوفا ہوتا
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہوکر مر جاویں اس کو بھی بدنام کریں
Mir Taqi Mir Ghazal
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا
بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا
کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا
مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا
میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بت کدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلبرگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے
سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے
اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے
بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے
اک دم میں تو نے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تب ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہے غزل میر یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ
کس بھروسے پر آشنائی کی
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
کاش اٹھیں ہم بھی گنہگاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ
اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ
بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ
یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا
یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت
زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا
تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا
میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی
آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے جا رہے گا
غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے
بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا
مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی
گو سر کو کھو رہے گا پر اس کو پا رہے گا
عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گزری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا
دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر
بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا
کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قید حیات میں ہے تو میرؔ آ رہے گا
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو
شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو
Meer Taqi Meer
Meer Taqi Meer, one of the most famous Urdu poets of all eras, has left an indelible mark on the world of poetry with his excellent words. His words, laced with deep emotions and subtle images, are timeless and touch the depths of the human soul. Mir's poetry is a testament to his mastery, where every line rings with passion and desire and leaves the reader mesmerized by the sheer beauty of his art.
My YouTube channel.